ایک انشائیہ کالم
اچھے انسان اس قابل ہوتے ہیں کہ زندگی میں ان کی قدر کی جائے،ان کے احسانات کا اعتراف کیا جائے ،ان کی خدمات کو سراہاجائے اور ان کی نیکیوں کو دوسروں کے سامنے بیان کیا جائے تا کہ دوسرے بھی انہیں دیکھ کر نیکی کے راستے میں قدم اٹھائیں۔
جب انسان مر جائے تو پھر ظاہری طورپر اس کے لئے مساوی ہے کہ اسے سونے کے تابوت میں رکھ کر بحرلکاہل کی موجوں کی نذر کردیاجائے یا پھر اس کی لاش کی چتا جلا کر گنگا میں بہادی جائے،اس کی مورت بناکر بازار کے چوراہے میں سجا دی جائے یا اسے زمزم سے غسل دے کر کھدر کے کفن میں لپیٹ کر قبر میں اتار دیاجائے۔
مرنے کے بعد کسی کی قبر کو آبِ زر سے چمکانے سے کئی گنا افضل یہ ہےکہ زندگی میں اس کی قدر کی جائے،اس کے افکار و نظریات کو اہمیت دی جائے اور اس کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
عظیم لوگ فقط کتابیں پڑھ کر عظیم نہیں بنتے بلکہ اسی معاشرے میں زندگی گزار کر عظیم بنتے ہیں۔عظمت کے اپنے مدارج ہیں کوئی دوسروں کی نسبت دس فی صد عظیم ہوتا ہے تو کوئی سو فی صد۔ضروری نہیں کہ ہر عظیم انسان معصوم بھی ہو لہذا ہر انسان کو اس کی خامیوں کے باوجود ضروری حد تک احترام دینا چاہیے۔ہر غیر معصوم انسان میں کہیں نہ کہیں خامی ہوتی ہے اور ہر گُل کے پہلو میں خار ہوتا ہے۔خار کو دیکھ کر پورے گلستاں کی طرف پشت نہیں کرنی چاہیے۔جولوگ صرف خار دیکھتے ہیں وہ جلد یا بدیر دوسروں کی نگاہ میں خوار ہوجاتے ہیں۔
یہ دنیا بہت حسین ہے۔اس کا حُسن نیک اور ہمدرد لوگوں کے دم سے قائم ہے۔اس کی خوبصورتی ان لوگوں کے دم سے ہے جو دوسروں کو معاف کرتے ہیں،اچھائیوں میں پہل کرتے ہیں اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
جولوگ حسنِ اخلاق سے محروم ہوتے ہیں وہ در اصل اس دنیا کے ہر حسن سے محروم ہوتے ہیں،وہ رفتہ رفتہ اچھے دوستوں ،اچھے عزیزوں اور اچھی یادوں سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔
اچھا اخلاق ،انسان کو تراش خراش کر اچھا بناتاہے۔جس طرح نیزے کی نوک پر لٹکی ہوئی انسانی کھوپڑی کو انسان نہیں کہتے ،اسی طرح گوشت پوست اور ہڈیوں سے جڑے ہوئے سر کو بھی انسان نہیں کہاجاتا۔
انسان بننے کے لئے خود کو تراشنا پڑتاہے اور جو خود کو تراش لیتے ہیں وہی عظیم انسان کہلاتے ہیں۔جو جتنے فیصد خود کو تراش لیتا ہے وہ اتنے فی صد ہی عظیم ہوتا ہے۔البتہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ پتھر کی سلوں کو تراش کر شہکار تخلیق کرنا آسان ہے،لوہے کی سیلٹوں کو کاٹ کر کوئی فن پارہ تشکیل دینا آسان ہے،پلکوں سے کنواں کھود کر پانی نکالنا آسان ہے لیکن انسان کا خود کو تراش کر انسان بنانا بہت مشکل ہے۔
معصومینؑ کے بعد یقینا لائق صد احترام اور قابل صد سلام ہیں وہ غیر معصوم انسان بھی ہیں جنہوں نے انسان کو انسان بنانے میں اپنا کردار اداکیا۔کتنے ہی اچھے انسان ہمارے ارد گرد موجود ہوتے ہیں لیکن ہم ان کی زندگی میں ان کی قدر نہیں کرتے۔